Saturday, June 14, 2014

جھوٹ کی منڈی اور ادھار اور خیرات کی معاشرت


آج کل میڈیا کے حوالے سے کافی کچھ  کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے جس میں ہر شخص اپنی اپنی ذہنی بلندی اور پسماندگی بھی ظاہر کر رہا ہے ایک بہت مشہور  حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کے انسان کے جھوٹا ہونے  کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کر دے 

کراچی ائیرپورٹ کے واقعے نے جہاں ہماری سیکورٹی پر کئی  سوالیہ نشان لگا دیے وہاں بطور قوم ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کا موقع بھی فراہم کیا کہ ہم اپنے آپ پر نظر دوڑا سکیں کے ہم خود کہاں  کھڑے ہیں. ٹویٹر پر ہر سیکنڈ میں آنے والی خبریں جو کے افراد کے   ساتھ ساتھ اداروں کی طرف سے بھی ہوتی تھیں، اگر آج ہم انہیں دوبارہ پڑھیں تو خود ہی شرمندہ ہو جائیں. کرنے والے کر کے چلے گئے مگر ہمیں یہ تک  پتا نہیں چلتا کے وہ کون تھے اور کیوں آئے تھے؟ اگر وو خود ہم پر احسان کر کے اپنا تعارف نا کرواتے. 

اخباروں کو دیکھیے، جنھیں ابھی پڑھنے کی ضرورت ہے وہ  لکھ رہے ہیں اور جو اچھا سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے وو بولتے ہوے پاے جا رہے ہیں. جسے دیکھیے اسلام کی تشریح کر رہا ہے اور جہاں نظر اٹھائیے مشکل مشکل الفاظ کا استعمال کر کے بیوقوف عوام کو مزید بیوقوف بنا رہا ہے. اور ہم جو کے بنیادی طور پر تالیاں پیٹنے والی قوم ہیں، وہ جی وہ بہت خوب کا اضافہ کر کے انہی چیزوں کو چاے خانوں اور پا ن کی دکانوں پر پہنچا رہے ہیں بغیر اس بات کا اندازہ کئے کہ بیچاری عوام اپنی پسند کا تجزیہ ہی تسلیم کرتے ہیں اور ذرا بھی ان کے ناپسندیدہ تجزیہ نگار یا میزبان کے منہ سے غلطی سے بھی سچ نکل جاے تو فوری طور پر فتویٰ صادر فرماتے ہیں. 

اگر ہم غور کریں تو ہم میں سے معاشرت کے ساتھ ساتھ شعور بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے اب ہم کسی کی اخلاص سے کی ہی نصیحت کو بھی پہلے اپنے تجزیے کے ترازو میں تولتے ہیں اگر ہم آج سے دس پندرہ سال پہلے کی دوستیوں کا مشاہدہ کریں تو ہمیں صاف نظر آئے گا کہ ہم خود بھی خودغرضی کے دلدل میں کتنا  اندر اتر چکے ہیں. مرے ناقص خیال میں آج ہم کم از کم اپنے اطراف میں خصوصاً قریب میں اگر اخلاص اور خیرخواہی کو فروغ دے پاتے ہیں تو ہمارا معاشرہ اس دلدل سے زندہ بچ کر نکل سکتا ہے 

کرنا کیا ہے، صرف اپنے آپ کو سامنے والے کی جگا رکھ کر سوچنا ہے کے اگر کوئی قطار میں لگنے یا سرّک پر آگے نکلنے کی جستجو کرنے والے کو چند سیکنڈ کا توقف کر کے اس لئے راستہ دینا ہے کے شاید وو ہم سے زیادہ جلدی میں ہے یا ذہنی طور کسی شدید کھنچاؤ کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے. اسی طرح کی کوئی بھی مثال لے لیجیے.

اس سوچ پر بہت شرمندہ ہوتا ہوں کے کیا مشرق اب اس قدر بانجھ ہو چکا ہے  کے اپنے نوجوانوں کو صحیح  سمت یا اپنی بیٹیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفّظ نہیں دے سکتا ہم نے تو بڑوں سے سنا تھا کہ "آنے والے دور کے انساں ہم سے جینا سیکھیں گے" کیا ترقی صرف مادّی ہوتی ہے؟ دجال کٹ بال اور بے آستین کی قمیض ہی آپ کو ترقی یافتہ ثابت کرے گی؟ 

 ہم معاشرتی طور پر بھی سنی سنائی کے عادی ہوچکے ہیں. اپنی تاریخ بھی اگر وکی پیڈیا پر ملے گی تو ہم یقین کریں گے کچھ عرصہ پہلے جب وکی لیکس نے کچھ انکشافات کئے تو سب نے صفائیاں دینا شروع  کر دیں . ذہن میں اٹھنے والی خرافات کو صفحے پر لانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر تقلید ہی کرنی ہے تو ہمارے پاس کوئی ایسا نہیں جو مشعل راہ ہو؟ یا ہم فکری طور پر بلکل لولے لنگڑے ہیں کے ہمیں ہر انداز، ہر شعبے، ہر تشریح یہاں تک کے معاشرت بھی خیرات یا ادھار میں لینی پڑے گی. کیا ہم اچھے دوست، اچھے پڑوسی اور اچھے ساتھی  بن ہی نہیں سکتے؟

لغوی یا اصطلاحی غلطیوں کے لیے معذرت، اپنی اصلاح کے لیے ہمیشہ کھلا 

عبدل باسط یوسف

No comments:

Post a Comment