آج کا مضمون میں ایک واقعے سے شروع کرنا چاہتا ہوں .
دو دوست جنگل میں جا رہے تھے کہ اچانک ایک شیر آگیا یہ دیکھ کر ایک دوست اپنے امپورٹڈ جوتے بیگ میں سے نکالنے لگا یہ دیکھ کر اس کے دوست نے پوچھا " کیا یہ جوتے پھن کر تو شیر سے زیادہ تیز دوڑ لے گا؟" اسکا جواب ہی میرا مضمون ہے اسکا جواب تھا
"شیر سے تو زیادہ تیز نہیں البتہ تجھ سے تو زیادہ تیز دوڑ لوں گا نا "
آج کا دور اسکے اس جواب کی تشریح ہے. آج ہم سب کا فون اٹھانا یا نہ اٹھانا، میسج کا جواب دینا یا نہ دینا، دعوت جانا، کام سے کچھ زیادہ وقت بیٹھنا یا نہ بیٹھنا ، سب کا سب سامنے والے کی سٹیٹس پر منحصر ہے. آپ سلام کے جواب کو ہی لے لیجیے. ہمارا "وعلیکم اسسلام" کے وقت تاثر اس منحصر ہے کے دنیاوی اعتبار سے "بڑا" آدمی ہے یا چھوٹا. اگر ہمارے دفتر میں صرف دو مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور تیسرا آجانے کی صورت میں ہم سوچتے ہیں کے کسی کو کھڑا کروں؟ دوسری کرسی منگواؤں؟ یا آنے والے کو ٹہلا دوں؟
اخلاق اب "کام کے آدمی" اور "بے کار آدمی" کے درمیان ہی گردش کرتے ہیں. صاحب ثروت اپنے آپ کو عزت کا حقدار سمجھنے لگے ہیں اور بے چارہ سفید پوش ذلیل ہونے کے ڈر سے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا چھوڑ رہا ہے. پندرہ سے بیس منٹ کی نشست میں لوگ "الله کا شکر ہے" لگا کر اپنی بڑائ بھی جتاتے ہیں اور "بڑا بول نہیں بولتا" لگا کر اپنے طاقتور ہونے کو ثابت بھی کرتے ہیں.
میرے اور آپکے موبائل فون میں ایک وقت میں ١٠٠ سے زیادہ نمبر نہیں ہوتے تھے اور آج جب روابط کا بھنڈار ہے ہم عید تک کی مبارکباد کو سے آے ہوے میسج کو کو فارورڈ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں.امید کی ایک کرناس وقت نظر آتی ہے جب کوئی تنگ دست دوسرے تنگ دست کی اپنے محدود وسائل کے باوجود مدد کر رہا ہوتا ہے.
مال کی محبّت بھی عجیب ہے. وہ چیز جس کی اصل قدر دو تین سو روپے سے زیادہ نہیں ہوتی ہم اسے ایک ہزار میں خوشی خوشی لے لیتے ہیں اور پھر اس برانڈ کے شاپنگ بیگ کا بھی اپنا ایک " ٹور " ہوتا ہے جبکہ بیچارا پھل والا پچاس کے ساٹھ مانگ لے تو " حلال " اور " جائز " پر فضائل سناتے ہیں.باطل نے اپنی سوچ اور تھیوری کو عمدہ طریقے سے ہمارے معاشرے کی رگوں میں اتار دیا.
" مارکس " اور " لینن " پڑھنے والوں سے بھلا اور امید بھی کیا کی سکتی ہے . آج مرے کچھ دوست اس منڈی میں لوگوں کو انسانیت کو نفع پہنچانے والی نیت کے ساتھ کاروبار کرنے پر قائل کر رہے ہیں. اللہ ان کو بہترین جزاء عطا فرماے. مگر کیا آج معاملات سے متعلق باریک سے باریک بات کا جواب آسانی سے نہیں مل رہا؟ کیا سود، ذخیرہ اندوزی کی قباحتیں کسی سے ڈھکی چھپی ہیں؟
الله ہم سب کا ظاہر اور باطن ایسا بنا دے جو اسے پسند ہے. ہم سب کے مسائل حل ہی اس وقت ہونگے جب ہم دین کو ہر چیز پر فوقیت نہیں دیتے. جب الله کا حکم مقدّم رہے گا تو خیر ہی خیر پھیلے گی. جب ہماری یہ سوچ کہ "بیکار آدمی" ہے ہمارے اندر رہے گی تو ہمیں بھی ایک وقت میں "بیکار آدمی" ہی بنا دیا جاے گا.
دو دوست جنگل میں جا رہے تھے کہ اچانک ایک شیر آگیا یہ دیکھ کر ایک دوست اپنے امپورٹڈ جوتے بیگ میں سے نکالنے لگا یہ دیکھ کر اس کے دوست نے پوچھا " کیا یہ جوتے پھن کر تو شیر سے زیادہ تیز دوڑ لے گا؟" اسکا جواب ہی میرا مضمون ہے اسکا جواب تھا
"شیر سے تو زیادہ تیز نہیں البتہ تجھ سے تو زیادہ تیز دوڑ لوں گا نا "
آج کا دور اسکے اس جواب کی تشریح ہے. آج ہم سب کا فون اٹھانا یا نہ اٹھانا، میسج کا جواب دینا یا نہ دینا، دعوت جانا، کام سے کچھ زیادہ وقت بیٹھنا یا نہ بیٹھنا ، سب کا سب سامنے والے کی سٹیٹس پر منحصر ہے. آپ سلام کے جواب کو ہی لے لیجیے. ہمارا "وعلیکم اسسلام" کے وقت تاثر اس منحصر ہے کے دنیاوی اعتبار سے "بڑا" آدمی ہے یا چھوٹا. اگر ہمارے دفتر میں صرف دو مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور تیسرا آجانے کی صورت میں ہم سوچتے ہیں کے کسی کو کھڑا کروں؟ دوسری کرسی منگواؤں؟ یا آنے والے کو ٹہلا دوں؟
اخلاق اب "کام کے آدمی" اور "بے کار آدمی" کے درمیان ہی گردش کرتے ہیں. صاحب ثروت اپنے آپ کو عزت کا حقدار سمجھنے لگے ہیں اور بے چارہ سفید پوش ذلیل ہونے کے ڈر سے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا چھوڑ رہا ہے. پندرہ سے بیس منٹ کی نشست میں لوگ "الله کا شکر ہے" لگا کر اپنی بڑائ بھی جتاتے ہیں اور "بڑا بول نہیں بولتا" لگا کر اپنے طاقتور ہونے کو ثابت بھی کرتے ہیں.
میرے اور آپکے موبائل فون میں ایک وقت میں ١٠٠ سے زیادہ نمبر نہیں ہوتے تھے اور آج جب روابط کا بھنڈار ہے ہم عید تک کی مبارکباد کو سے آے ہوے میسج کو کو فارورڈ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں.امید کی ایک کرناس وقت نظر آتی ہے جب کوئی تنگ دست دوسرے تنگ دست کی اپنے محدود وسائل کے باوجود مدد کر رہا ہوتا ہے.
مال کی محبّت بھی عجیب ہے. وہ چیز جس کی اصل قدر دو تین سو روپے سے زیادہ نہیں ہوتی ہم اسے ایک ہزار میں خوشی خوشی لے لیتے ہیں اور پھر اس برانڈ کے شاپنگ بیگ کا بھی اپنا ایک " ٹور " ہوتا ہے جبکہ بیچارا پھل والا پچاس کے ساٹھ مانگ لے تو " حلال " اور " جائز " پر فضائل سناتے ہیں.باطل نے اپنی سوچ اور تھیوری کو عمدہ طریقے سے ہمارے معاشرے کی رگوں میں اتار دیا.
" مارکس " اور " لینن " پڑھنے والوں سے بھلا اور امید بھی کیا کی سکتی ہے . آج مرے کچھ دوست اس منڈی میں لوگوں کو انسانیت کو نفع پہنچانے والی نیت کے ساتھ کاروبار کرنے پر قائل کر رہے ہیں. اللہ ان کو بہترین جزاء عطا فرماے. مگر کیا آج معاملات سے متعلق باریک سے باریک بات کا جواب آسانی سے نہیں مل رہا؟ کیا سود، ذخیرہ اندوزی کی قباحتیں کسی سے ڈھکی چھپی ہیں؟
الله ہم سب کا ظاہر اور باطن ایسا بنا دے جو اسے پسند ہے. ہم سب کے مسائل حل ہی اس وقت ہونگے جب ہم دین کو ہر چیز پر فوقیت نہیں دیتے. جب الله کا حکم مقدّم رہے گا تو خیر ہی خیر پھیلے گی. جب ہماری یہ سوچ کہ "بیکار آدمی" ہے ہمارے اندر رہے گی تو ہمیں بھی ایک وقت میں "بیکار آدمی" ہی بنا دیا جاے گا.