Thursday, November 12, 2015

بیکار آدمی

آج کا مضمون میں ایک واقعے سے شروع کرنا چاہتا ہوں .
دو دوست جنگل میں جا رہے تھے کہ اچانک ایک شیر آگیا یہ دیکھ کر ایک دوست اپنے  امپورٹڈ  جوتے بیگ میں سے نکالنے لگا یہ دیکھ کر اس کے دوست نے پوچھا " کیا یہ جوتے پھن کر تو شیر سے زیادہ تیز دوڑ لے گا؟" اسکا جواب ہی میرا مضمون ہے اسکا جواب تھا
"شیر سے تو زیادہ تیز نہیں البتہ تجھ سے تو زیادہ تیز دوڑ لوں گا نا "

آج کا دور اسکے اس جواب کی تشریح ہے. آج ہم سب کا فون اٹھانا یا نہ اٹھانا، میسج کا جواب دینا یا نہ دینا، دعوت  جانا، کام سے کچھ زیادہ وقت بیٹھنا یا نہ بیٹھنا ، سب کا سب سامنے والے کی سٹیٹس پر منحصر ہے. آپ سلام کے جواب کو ہی لے لیجیے. ہمارا "وعلیکم اسسلام" کے وقت تاثر اس  منحصر ہے کے  دنیاوی اعتبار سے "بڑا" آدمی ہے یا چھوٹا. اگر ہمارے دفتر میں صرف دو مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور تیسرا آجانے کی صورت میں ہم سوچتے ہیں کے کسی کو کھڑا کروں؟ دوسری کرسی منگواؤں؟ یا آنے والے کو ٹہلا دوں؟

اخلاق اب "کام کے آدمی" اور "بے کار آدمی" کے درمیان ہی گردش کرتے ہیں. صاحب ثروت اپنے آپ کو عزت کا حقدار سمجھنے لگے ہیں اور بے چارہ سفید پوش ذلیل ہونے کے ڈر سے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا چھوڑ رہا ہے. پندرہ سے بیس منٹ کی نشست میں لوگ "الله کا شکر ہے" لگا کر اپنی بڑائ بھی جتاتے ہیں اور "بڑا بول نہیں بولتا" لگا کر اپنے طاقتور ہونے کو ثابت بھی کرتے ہیں.

میرے  اور آپکے موبائل فون میں ایک وقت میں ١٠٠ سے زیادہ نمبر نہیں ہوتے تھے اور آج جب روابط کا بھنڈار ہے ہم عید تک کی مبارکباد کو سے آے ہوے میسج کو کو فارورڈ کر کے  مطمئن ہو جاتے ہیں.امید کی ایک کرناس وقت نظر آتی ہے جب کوئی تنگ دست دوسرے تنگ دست کی اپنے محدود وسائل کے باوجود مدد کر رہا ہوتا ہے.

مال کی محبّت بھی عجیب ہے. وہ چیز جس کی اصل قدر دو تین سو روپے سے زیادہ نہیں ہوتی ہم اسے ایک ہزار میں خوشی خوشی لے لیتے ہیں اور پھر اس برانڈ کے شاپنگ بیگ کا بھی اپنا ایک " ٹور " ہوتا ہے جبکہ بیچارا پھل والا پچاس کے ساٹھ  مانگ لے تو " حلال " اور " جائز " پر فضائل سناتے ہیں.باطل نے اپنی سوچ اور تھیوری کو  عمدہ طریقے سے ہمارے معاشرے کی رگوں میں اتار دیا.
" مارکس " اور " لینن " پڑھنے والوں سے بھلا اور امید بھی  کیا کی سکتی ہے . آج مرے کچھ دوست اس منڈی میں لوگوں کو انسانیت کو نفع پہنچانے والی نیت کے ساتھ کاروبار کرنے پر قائل کر رہے ہیں. اللہ ان کو بہترین جزاء عطا فرماے. مگر کیا آج معاملات سے متعلق باریک سے باریک بات کا جواب آسانی سے نہیں مل رہا؟ کیا سود، ذخیرہ اندوزی کی قباحتیں کسی سے ڈھکی چھپی ہیں؟

الله ہم سب کا ظاہر اور باطن ایسا بنا دے جو اسے پسند ہے. ہم سب کے  مسائل حل ہی اس وقت ہونگے جب ہم دین کو ہر چیز پر فوقیت نہیں دیتے. جب الله کا حکم مقدّم رہے گا تو خیر ہی خیر پھیلے گی. جب ہماری یہ سوچ کہ "بیکار آدمی" ہے ہمارے اندر رہے گی تو ہمیں بھی ایک وقت میں "بیکار آدمی" ہی بنا دیا جاے گا.

مسجد کی ٹوپی

سر کا ڈھانکنا ایک مستقل سنّت ہے . مگر اس پوسٹ کے لکھنے کی وجہ سنّت پر بحث کرنا نہیں ہے .

اب تو خیر یہ رواج کافی حد تک کم ہو گیا ہے مگر یہ بات سب کے مشاہدے میں ہوگی کہ مساجد میں ایک ڈبہ رکھا جاتا تھا جس میں ٹوپیاں پڑی رہتی تھیں. اور نمازی نماز پڑھتے وقت وہ ٹوپی لگا کر نماز پڑھتے تھے اور واپس جاتے وقت اسے پھر سے ڈبے میں رکھ دیتے تھے.  اکثر ان بیچاری ٹوپیوں کا حال بہت خراب ہو جاتا تھا. میلی کچیلی اور ٹوٹی پھوٹی بھی. پہلے وقتوں میں تنکوں سے تیار کردہ ٹوپیاں استعمال ہوتی تھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ پلاسٹک اور پھر مختلف رنگوں میں آنے لگیں. مسجد پر لگے "لیبل" کے مطابق اسکا رنگ اندر موجود ہوتا تھا.

اب اس پوری تمہید کو آج کے دور میں اسلام کی حالت پر رکھ کر سوچیے ؟ جی ہاں، آج ہم نے اسلام کے ساتھ بھی ووہی کچھ کیا ہے. کیسے؟

ہماری زندگی میں دین مسجد میں قدم رکھنے پرشروع ہوتا ہے اور مسجد سے باہر نکلنے  پر اگلی نماز تک موقوف ہو جاتا ہے. آج ہم صرف مسجد کے اندر کے مسلمان رہ گئے ہیں. معاشرت، معاملات، اخلاقیات اور عدل جس میں میری ناقص راءے کے مطابق ستر فی صد دین موجود ہے، خال خال کہیں دکھائی دیتا ہے اور وہ بیچارا  بھی بے وقوف کہلانے کے ساتھ ساتھ ملامت اور تنقید کی زد میں ہی رہتا ہے. تو بے اختیار میرے آقا سرور کائنات صلّ اللہ علیہ وسّلم کے مبارک الفاظ یاد آتے ہیں کہ دین پر چلنا انگاروں کو ہاتھ میں لینے جیسا ہوگا.

ہم سوچیں کہ کیا اسلام صرف عبادت کا نام ہے؟ اور پھر مجھ جیسے بے عمل انسان کے اندر کا مسلمان تو اس وقت زیادہ جاگتا ہے جب کسی نماز کے پابند با ریش انسان کو وعدہ خلافی یا ٹال مٹول کرتے ہوے یا پھر جھوٹ بولتے دیکھوں. پھر سونے پہ سہاگہ "ہماری مسجد تمھاری مسجد" ہے. اپنی مسجد نہ ملنے کی وجہ سے جماعت کی نماز کا ترک کرنا یہاں تک جماعت کے ترک ہو جانے کے بعد نماز بھی قضا ہو جاے، یہ عام بات ہو گئی ہے. اور اب تو نوبت یہاں تک آگئی کے اپنے علاوہ سب کو باطل سمجھنا. عربی میں لکھی ہی کتابوں کا اردو ترجمہ اوروہ  بھی کسی ایسے مترجم کا جس سے صرف یہ پوچھ لیا جاے کہ عربی میں "آپ" "تم" اور "تو" سے ایک ایک کلمہ بنا کر دیجیے تو جواب میں پچاس سے سو سال پرانی وہ پوری کھیپ جس نے اپنی پوری زندگی صرف عربی زبان و بیان میں صرف ہوئی ان پر تنقید کا پہاڑ توڑیں گے.

جھوٹ، بہتان، الزام، غیبت، سنی سنائی کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنا اور اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کسی بھی بات کو قران و حدیت سے منسوب کرنا گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا.  بس اسلام اور اسکے احکامات "مسجد کی ٹوپی" کی طرح نماز کے وقت میں عبادت کرنے کے لیے یا پھر رمضان اور کچھ اپنی طرف سے مخصوص کے گئے دنوں تک محدود ہیں.

باطل ہمارے گھر کی دہلیز پر ہمیں لوٹنے اور برباد کرنے کے لیے بلکل تیار ہے اور ہم اسے جواب میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی رکو میں پہلے "چیک" کر لوں کے وو ہمارے مکتبہ فکر والا ہے یا کہ "کافر" اور "گمراہ". اور چونکے یہ نماز کا وقت نہیں ہے اس لیے "ٹوپی" میں مسجد میں رکھ کر باہر آگیا ہوں اور اب اسلام اگلی نماز تک نعوذ باللہ موقوف ہے.

الله سے دعا ہے کہ

"دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے"
"وہ  بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں"
"عزائم کو سینوں میں بیدار کردے"
"نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے"





Thursday, June 11, 2015

مسلمانوں، ہم تمہارا گریبان ضرور پکڑیں گے



دنیا سمٹ گئی اور کمپیوٹر کھولتے ہی آپکو سچی جھوٹی، تعریفی اور تنقیدی خبریں نظر آنا شروع ہوگئیں. اس پوسٹ کو لکھنے کی وجہ برما اور صرف برما ہے. 

ایک  مہینہ ہوگیا ہے مگر کوئی اس خبر کی تائید یا تردید کرنے کو تیار  نہیں ہے کے آیا ذبح کئے ہوے بچے جلی ہوئی لاشیں اور کھال اترے ہوے جسموں کی تصاویر سچی ہیں یا جھوٹی. بظاہر یہ مسلمانوں پر کفّار کا تشدّد اور ظلم کی عظیم مثال  ہے مگر اس سے ہم سب ننگے ہوگئے. الیکشن کمیشن، دھاندلی، شیر، بلا ، تیر اور پتنگ اور ان سب میں جو زیادہ منسلک ہےوہ ترازو ہے. ہمیشہ کی طرح ہماری قوم نے  جلوس نکالے اور اخباروں اور سوشل میڈیا میں خوبصورت پوز والی تصاویر اور ان سب سے بڑھ کر یہ کے ہماری ایمانی غیرت کا معیار کسی پوسٹ یا تصویر کےشیئر  کرنے یا نہ کرنے پر ہے.

یہ جملے مثال کے طور پر "اگر ایمان ہے تو شیئر کریں"  "شیئر کر کے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں"وغیرہ وغیرہ. آپ روز دیکھتے ہونگے. بھارت کے بیان پر شور شرابا کرتے ہیں اور کرنا چاہیے مگر وو لوگ جن کے گلے صرف اس لیےکاٹے  ہیں کہ وہ لا الہٰ الاللہ کہنے والے ہیں، ان کا کیا؟ اور ہم بڑے  فخر سے غوری، ٹیپو، بابر اور  فاتحین کا  تذکرہ کرتے ہیں جیسے ہم انکی فوج میں شامل تھے. آج بطور مسلمان شدّت سے اپنی بیچارگی اور لاچاری کا احساس ہو رہا ہے کہ کل یہی تلواریں خدانخواستہ ہمارے سروں پر چلنے لگیں گی تو بھی ہم فیس بک اور ٹویٹر جہاد کریں گے اور زیادہ سے زیادہ شیئر کر کے ایمانی ذمےداری سے دستبردار ہونگے؟

خدا کے لیے، اگر جس طرح سے آواز اٹھانی چاہیے اس طرح نہیں اٹھا سکتے تو کم از کم ان مظلوموں کی لاشوں اور انکے برباد خاندانوں کا تماشا تو نہ بنائیں. بلے، شیر، ترازو، تیر، رکشا، اور پتنگ والے اپنے سیاسی کارکن کے زخمی ہونے پر پورا شہر سر پر اٹھا لیتے ہیں تو یہ تو مسلمان ہیں.... مجبور، مظلوم اور بے کس مسلمان... ان کی آسمان کی طرف روتی  نگاہوں سے دیکھتی ہی تصویریں، اپنے چھوٹے  بچوں کے کٹے ہوے گلے والی لاشوں کو گود میں لیے ہے تصویریں، ایک لائن میں رکھی  جلی ہوئی  لاشوں کی تصویریں، کیا ہمارے جسم پر لگے ہے ایک بھی رویں کو حرکت نہیں دیتیں.... 

حق اور سچ کے ٹیلی ویژن پر  کنڈیشن کمروں میں گرما گرم چاۓ کا کپ ہاتھ میں لے کر شوشے چھوڑتے ہوے اینکرز،  کیمرے کے سامنے جھوٹا اور بناوٹی جذباتی انداز اختیار کرنے والے تجزیہ نگار (میں جھوٹا اور بناوٹی ہی کہوں گا) کیونکے اپکا ایک ایک لفظ لاکھوں لوگ سنتے ہیں... اور جو بکتا بھی ہے... تو کیا ایک جملہ کسی بھی پروگرام کے دوران  "برما" کے لیے نہیں نکلتا..

ان سطور تک  کافی خون ٹپکا چکا... یا الله مجھے منافق ہونے سے بچا.. 

کشاد در دل سمجھتے ہیں جس کو، ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے، وو بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں 
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے، نگاہ مسلمان کو تلوار کر دے.

شاید ہماری قوم میں تو کوئی ایسا نہیں.. مگر دنیا میں کہیں تو کوئی صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد ضرور ہوگا.

Monday, September 8, 2014

"او سیاست دانو" "او میڈیا والو" "او مقتدر حلقو"



پچھلے چند ہفتوں سے کمنٹس اور ریمارکس کا طوفان برپا ہے. مجھ سمیت ہر کوئی حسب توفیق اپنا اپنا حصّہ ملا رہا ہے. ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر ہے. الزامات کے جواب میں الزامات اور ایک گالی کے جواب میں گالیوں کا بھنڈار. ایک بات جو زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ سنی سنائی کا بغیر تحقیق کے آگے بیان کر دینا اور اس "کار خیر" میں سوشل میڈیا نے مفت کی تفریح فراہم کر دی ہے. ایک مفت کا اکاؤنٹ بناؤ اور الٹ دو جتنی گندگی الٹنی ہے. 

صد افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ عوام تو عوام ، لیڈران نے بھی حد کر دی ہے.ایک عجیب اور واہیات حرکات کا ایک کے بعد ایک برپا ہونا جہاں عوام کو زہر میں ڈبو رہا ہے وہاں "گرین پاسپورٹ " کی رہی سہی عزت بھی  مٹی میں مل رہی ہے . مجھ جیسے کوڑھ دماغ لوگ بھی اس کا نتیجہ  نکال رہے ہیں کہ عوامی موضوع پر کوئی بات کرنے کے لیے تیّار نہیں ہے. اور پھر ٹی وی کے تجزیات خدا کی پناہ. بال کی کھال  اور پھر اس کھال سے پھر بال ڈھونڈنا. بہت اچھی روش ہے کے واقعات اور بیانات کو ہر زاویے سے پرکھا جاے تاکہ سچ اور جھوٹ کا اندازہ لگایا جا سکے. مگر مجھ جیسے ناکارہ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ہوتی تو ذاتی راے یا اندازہ ہے، مگر یہ جہاں ہمیں سوچنے کا نیا زاویہ دیتا ہے وہا ان کے لیے بھی نیا "آئیڈیا" ہوتا ہے جو پردے کے پیچھے رہ کر ہمارے ملک کا تماشا دیکھتے یا بناتے ہیں.

اگر ایک پیراے میں حالات کو بینڈ کیا جاے تو بات بہت سادہ ہے.مگر اس سادہ سی بات نے جہاں بہت سے لوگوں کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے وہاں سب نے اپنی ذات کو ملکی مفاد سے مقدّم کر دیا ہے. اور سچی بات ہے کہ مجھے ذاتی طور پر ایسا محسوس ہو رہا ہے چیزوں کو پیچیدہ در پیچیدہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے. مخالف سے ثبوت مانگنے والا خود ثبوت دینے کے لیے تیار نہیں ہے. کسی کو ان سب کے پیچھے فوج نظر آرہی ہے تو کسی کو بیرونی طاقتیں.کوئی اس کو آنا پرستی کیہ رہا ہے تو کوئی اقتدار کی ہوس. اور اس پر ستم یہ کہ ہر آدمی "بہت بڑے راز " سے پردہ اٹھانے کی دھمکی دے رہا ہے تاکہ اپنا "چورن" بھی بیچ سکے .

حل بہت آسان ہے اگر کچھ ایسے لوگ خود سے آگے آئیں جن پر دونوں فریقین کو اعتماد ہو. بس صرف ایک سوال ہے کے اتنے سارے ان،انکشافات کے بعد پورے پاکستان میں ایسے دس پندرہ لوگ دستیاب ہیں جو بااختیار بھی ہوں اور جن کا دامن صاف بھی ہو. "او سیاست دانو"  "او میڈیا والو"  "او مقتدر حلقو" خدا کے لیے ایسے دس پندرہ لوگ ڈھونڈ دو جن کے درمیان میں آنے اور اعتماد حاصل کرنے کے ایک ہفتے بعد ان کے سکینڈل کے ٹکر بھی نہ چلنا شروع نہ ہو جایں اور ان میں سے بھر نکل کر کوئی پریس کانفرنس کی دھمکیاں نہ دے. خدا کے لیے ایسے صرف دس پندرہ لوگ پورے پاکستان میں سے ڈھونڈ لو تاکہ میں اپنے بچوں کو قسم کھا کر کہ سکون کہ "الله کی قسم پورا پاکستان کرپٹ نہیں ہے" 

باسط یوسف

Monday, July 21, 2014

ادارہ ذمہ دار نہیں ہے - Organization is not responsible

  
میرے کاروبار  نسبت سے اکثر بین الاقوامی رسائل جریدے نظر سے نظر سے گذرتے ہیں. آج یہ مضمون لکھنے کا خیال یوں آیا کہ ایک مضمون جس میں دنیا کے بڑے بڑے نام مثلا نوکیا ، فیس بک  اور ایپل جیسی کمپنیوں کے ہفتہ وار اتار چڑھاؤ پر ایک تفصیلی رپورٹ تھی. 

اچانک ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا کہ علما فرماتے ہیں کے حدیث شریف کا مفہوم ہے کے امّت کے اعمال پیر کے روز الله کے سامنے پیش کے جاتے ہیں. شاید اسی طرح کا اتار چڑھاؤ ہمارے اعمال  ایمان کا بھی ہوتا ہو گا اور اس کا ایک مربوط ریکارڈ الله کے یہاں محفوظ ہے. اب اگر جیسی ہماری حالت ہے، الله کے یہاں ہمارے ایمان اور اعمال لال رنگ کے حاشیے سے ہر ہفتے پہنچتے ہونگے تو ہمارا کس قسم کا ریکارڈ بن رہا ہوگا؟

دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے والے جب اس قسم کی رپورٹ  پڑھتے ہیں تو اس رپورٹ کے اعداد و شمار کو زیادہ سے کم کی ترتیب کی طرف سے دیکھتے ہیں کہ آیا وہ کونسی کمپنی ہے جو ترقی میں اوپر ہی اوپر ہے.اور جو کمپنی ترقی میں نیچے جا رہی ہے وہ اس فہرست میں خود بہ خود آخر میں چلی جاتی ہے. تو اس مناسبت سے سرمایہ کار کی دلچسپی اوپر اٹھتی ہوئی  کمپنی میں ہوتی ہے .

سوچنے کی بات ہے کہ جب ہمارے اعمال کی فہرست اوپر جاتی ہوگی تو جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو فہرست کے سب سے آخری حصّے میں ہونگا . تو کیا میرا رب میری اس کار کردگی سے خوش ہوگا؟ اور جب روز قیامت میرا اعمال نامہ میرے سامنے تمام تر ثبوتوں کے ساتھ رکھا جاے گا تو میں یہ کہ سکوں گا کہ مجھے کار کردگی بہتر بنانے کے لئے تھوڑا  وقت دیا جاے ؟

اور پھر وہ مرحلہ جب میرے حقوق العباد کے بدلے میری نیکیاں اسے  دے دی جائیں گی اور کم ہونے کی صورت میں اسکے گناہ میرے کھاتے میں ڈال دئیے جائیں گے تو میرے نامہ اعمال کی حالت کیا ہو جاے گی ؟ الله اپنا رحم فرماے . 

آج جسے کامیابی سمجھا جا رہا ہے اور نئی نسل کو کامیابی کہ کر بتایا جا رہا ہے وہ عیّاشی سے بھرپور طرز زندگی، پھیلا ہوا کاروبار، مالدار اور عہدہ دار لوگوں سے تعلق اور انتہائی منافع ہے . ہماری صلاحیتوں اور وقت کو پورے کا پورا دنیا کمانے کے لیے لگا دینا اور نفع کے علاوہ کچھ بھی نہ سننا اور سمجھنا ایک کامیاب انسان کی نشانیاں بتائی جا رہی ہیں

یہاں آکر اس زندگی کی طرف ذرا دیر کے لیے غور کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور وہاں زمین پر بنایا ہوا گھر، دفتر، گاڑی اور کرنسی جا نہیں سکتی.. میری کار کردگی جو ہر پیر کو الله کے سامنے پیش ہوتی ہے اس میں تیر کا نشان نیچے کی طرف ہے . اپنی کار کردگی بہتر بنانے کے لیے چند سوالات کو سامنے رکھیں گے تو انشا الله کار کردگی بہتر سے بہتر ہوتی چلی جاے گی اور جو وقت دیا گیا ہے اس کے علاوہ ایک سیکنڈ بھی اضافی نہیں ملے گا تو یہ وقت بھی کام میں آجاے گا. مثلا.

عمر گزر رہی ہے. جوانی خرچ ہو رہی ہے. مال کمایا جا رہا ہے. اور خرچ بھی کیا جارہا ہے.کتابوں، بیانات، تجزیات، اور دیگر سے علم اور معلومات کا پہاڑ بھی حاصل کیا جا رہا ہے. صرف ہماری کمزوری ہے تو عمل کی اور یہ کمزوری ہم پر مختلف اقسام کی خوشنما پیکنگ میں لادی گئی ہے. سنا، پڑھا اور اپنے تجزیات کیے اور الله معاف کرے کہ کر اپنی دنیا میں لگ گئے. اور وہاں ہمارا ریکارڈ خراب کا خراب ہی رہا

اگر صرف یہی چیز سوچ میں شامل ہو جاے کہ دنیا کا مایہ ناز ڈاکٹر بھی ٹی وی یا کسی اخبار میں یہ بیان دے جس کو پیٹ میں درد ہو وہ چھ گولیاں بخار کی ایک ساتھ خالی پیٹ کھا لے تو سننے والا اپنے ڈاکٹر کے پاس جاکر مشورہ ضرور کرے گا کہ ایسا سنا ہے کیا یہ ٹھیک ہے؟ بیشک ٹی وی یا اخبار والا ڈاکٹر نوبل انعام یافتہ ہو. مگر آج کسی سے بھی کسی سنّت کا تذکرہ کیا جاے تو آگے سے دلیل آتی ہے کے فلاں چینل پر یا اخبار میں ایک بھانڈ نے کہا تھا کہ یہ ضروری نہیں ہے . الله اکبر  غور کرنے کی بات یہ ہے کے ایک چھوٹا سا جملہ نظر سے گزرتا ہے 

"ادارہ ذمہ دار نہیں ہے "

تو شیطان بھی روز قیامت ہم پر ہنس رہا ہوگا اور مذاق اڑاے گا اور یہی کہے گا کیونکہ الله نے اسے وسوسہ ڈالنے تک محدود رکھا ہے عمل انسان کے اختیار میں ہے اور اسی پر سزا و جزا کا نظام ہے

.

Sunday, July 20, 2014

معلومات کی کثرت اور علم کا فقدان Sea of Knowledge and Lack of Wisdom

  
رمضان کے مہینے میں مصروفیات کے کم ہونے  وجہ سے مطالعاتی آوارہ گردی کرتا رہا. صرف طائرانہ نظر دوڑانے پر چکّر سا آ گیا. خدا کی پناہ پس منظر کے بغیر لوگ اپنے اپنے مطالعے کو حرف آخر سمجھ کر مواد کا پہاڑ کھڑا کر  رہے ہیں اور ٹی وی کے سامنے دن کا بیشتر حصّہ گزارنے والے یا مختلف قسم کے اخبارات چاٹنے والے بیچارے بینگن کی طرح لڑھکتے رہتے ہیں.

میں نے محسوس کیا (ہو سکتا ہے میں غلط ہوں) کے دنیا بھر میں لوگ ایک بنیادی چارٹر کو سامنے رکھتے ہیں اور پھر انھیں جو بھی معلومات دی جاے اسے اس پلڑے میں رکھ کر سوالات کرتے ہیں ، اب یہاں سوالات کے دو درجے ہو جاتے ہیں. سوالات براۓ بحث اور سوالات براۓ اصلاح. یہاں عمومی طور پر سوالات براے تنقید اور بحث کا رجحان زیادہ ہے کہ کسی طرح سامنے والے کی دلیل کو غلط اور اپنے موقف کو صحیح ثابت کر دیں.

بطور مسلمان ہمارا چارٹر کامل اور صحیح ترین ہے. شک کا ذرّہ بھی نہیں اور وہ  ہے قران مجید . تو اگر کسی کی بات کو تولنے کی نوبت آتی ہے تو قران کا پلڑا کامل ترین ہے. اب یہاں بات کو تھوڑا سا موضوع سے باہر لاتے ہیں. بطور مسلمان سب کا انتہائی مقصد کیا ہے؟ بیشک جنّت کو پانا اور جہنّم سے خلاصی. اور اس مقصد کے لیے الله نے اپنے محبوب سرور کائنات محمّد صل الله علیہ وسلّم کے ذریعے ہمیں بتا دیا کے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا.

اب اس بنیادی چارٹر کو خود پر لاگو کر کے ہر مسلمان آسانی سے فیصلہ کر سکتا ہے کے میری بنیاد ٹھیک ہے یا نہیں؟ مثلا جھوٹ دھوکہ تہمت فریب کینہ بغض حسد یہ عام  بیماریاں ہیں جو مجھ سمیت اکثریت کے اندر ہیں. دوسرا حرام کا نوالہ مثلا سود شراب حرام کردہ چیزیں زنا  جو کے واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ آنکھ کان زبان اور ہاتھ سب کا ہوتا ہے اس سے کون کون محفوظ ہے اور اس سے آگے یہ پڑھنے والے خود بھی جانتے ہیں. تو اگر میری بنیاد میں یہ بیماریاں ہیں تو میں بحث  کے اگلے صفحے پر تو آ ہی نہیں سکتا.

اب اگر مسلمان جنّت میں جانا چاہتا ہے اور وہ  کہتا پھر رہا ہے کہ میں مسلمان ہوں، دعا کرتا ہوں تو دعاؤں کے قبول نہ ہونے اور الله کی طرف سے جواب نہ آنے کی وجوہات تو واضح موجود ہیں. کینہ رکھنے والا، حرام کھانے والا ماں باپ کا نافرمان اور اس کے علاوہ دیگر. کیا ہم پہلی سیڑھی کے مسلمان بھی ہیں؟

آگے اس پر ستم یہ کے ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنا جو کے جھوٹا ہونے کی سب سے بری نشانی بتائی گئی. تو ہم اپنے اطراف میں دیکھیں کیا ہر جگا سے ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے نہیں بیان ہو رہی؟  ٹی وی کی شکل میں، موبائل فون کی شکل میں، فیس بک کی شکل میں اور دیگر. جس طرح الله نے ہمارے لیے انعام رکھا ہے کے ہماری کہی ہوئی بات سے اگر کوئی سیدھے راستے پر آجاتا ہے تو اس کا اجر ہمیں بھی ملتا ہے بلکل اسی طرح اگر ہماری بغیر تحقیق کے آگے بڑھائی ہی بات سے اگر کوئی ایک بھی بھٹک جاتا ہے تو ہم خود اندازہ کریں کے کیا ہوگا. اور پھر بغیر تحقیق کے آگے بڑھائی ہوئی بات تہمت، الزام، غیبت ان سب چیزوں کی گندگی بھی اپنے اندر لیے ہے ہوتی ہے تو ہم اپنا کیا حال کر رہے ہیں؟

میرا ایک بہت اچھا دوست جو کہ فوج میں ہے، اور مجھ سے زیادہ محب وطن بھی ہے، جب اسکے منہ سے ایک مایوسی والا جملہ سنا   تو مجھے احساس ہوا کے حق اور سچ بیان کرنے کے ٹھیکے داروں نے اپنی نسلوں تک کو داؤ پر لگا دیا ہے. اور پیسہ ہی خدا بنا لیا گیا ہے. کیا بے شمار پیسے سے قبر کا عذاب ٹالا اور جنّت خریدی جا سکتی ہے؟ کتابوں اور آرٹیکلز کے ڈھیر پڑھنے کے بعد بھی ہم فکری طور پر لولے لنگڑے ہی ہیں؟

رائے زنی اور وہ بھی نامکمّل معلومات اور سطحی مطالعے کے ساتھ خطرناک اور نقصان دہ ہو جاتی ہے اور ویسے بھی ہم تو اب اتنے یتیم ہیں کے اپنی ہی معلومات کی تصدیق کے ذرایع محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ہم اپنی کی ہی تحقیق پر تنقید اور سوالات بھی برداشت نہیں کرتے. اگر آج اس چیز کی بنیاد ڈالتے ہیں تو کل اپنی نسلوں کے آگے سرخرو ہو سکیں گے ورنہ وہ خدانخواستہ  مزید بھٹکے گی اور ہم ہونق بن کر ان کو ڈوبتا دیکھتے رہیں گے...   .

Saturday, June 14, 2014

جھوٹ کی منڈی اور ادھار اور خیرات کی معاشرت


آج کل میڈیا کے حوالے سے کافی کچھ  کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے جس میں ہر شخص اپنی اپنی ذہنی بلندی اور پسماندگی بھی ظاہر کر رہا ہے ایک بہت مشہور  حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کے انسان کے جھوٹا ہونے  کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کر دے 

کراچی ائیرپورٹ کے واقعے نے جہاں ہماری سیکورٹی پر کئی  سوالیہ نشان لگا دیے وہاں بطور قوم ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کا موقع بھی فراہم کیا کہ ہم اپنے آپ پر نظر دوڑا سکیں کے ہم خود کہاں  کھڑے ہیں. ٹویٹر پر ہر سیکنڈ میں آنے والی خبریں جو کے افراد کے   ساتھ ساتھ اداروں کی طرف سے بھی ہوتی تھیں، اگر آج ہم انہیں دوبارہ پڑھیں تو خود ہی شرمندہ ہو جائیں. کرنے والے کر کے چلے گئے مگر ہمیں یہ تک  پتا نہیں چلتا کے وہ کون تھے اور کیوں آئے تھے؟ اگر وو خود ہم پر احسان کر کے اپنا تعارف نا کرواتے. 

اخباروں کو دیکھیے، جنھیں ابھی پڑھنے کی ضرورت ہے وہ  لکھ رہے ہیں اور جو اچھا سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے وو بولتے ہوے پاے جا رہے ہیں. جسے دیکھیے اسلام کی تشریح کر رہا ہے اور جہاں نظر اٹھائیے مشکل مشکل الفاظ کا استعمال کر کے بیوقوف عوام کو مزید بیوقوف بنا رہا ہے. اور ہم جو کے بنیادی طور پر تالیاں پیٹنے والی قوم ہیں، وہ جی وہ بہت خوب کا اضافہ کر کے انہی چیزوں کو چاے خانوں اور پا ن کی دکانوں پر پہنچا رہے ہیں بغیر اس بات کا اندازہ کئے کہ بیچاری عوام اپنی پسند کا تجزیہ ہی تسلیم کرتے ہیں اور ذرا بھی ان کے ناپسندیدہ تجزیہ نگار یا میزبان کے منہ سے غلطی سے بھی سچ نکل جاے تو فوری طور پر فتویٰ صادر فرماتے ہیں. 

اگر ہم غور کریں تو ہم میں سے معاشرت کے ساتھ ساتھ شعور بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے اب ہم کسی کی اخلاص سے کی ہی نصیحت کو بھی پہلے اپنے تجزیے کے ترازو میں تولتے ہیں اگر ہم آج سے دس پندرہ سال پہلے کی دوستیوں کا مشاہدہ کریں تو ہمیں صاف نظر آئے گا کہ ہم خود بھی خودغرضی کے دلدل میں کتنا  اندر اتر چکے ہیں. مرے ناقص خیال میں آج ہم کم از کم اپنے اطراف میں خصوصاً قریب میں اگر اخلاص اور خیرخواہی کو فروغ دے پاتے ہیں تو ہمارا معاشرہ اس دلدل سے زندہ بچ کر نکل سکتا ہے 

کرنا کیا ہے، صرف اپنے آپ کو سامنے والے کی جگا رکھ کر سوچنا ہے کے اگر کوئی قطار میں لگنے یا سرّک پر آگے نکلنے کی جستجو کرنے والے کو چند سیکنڈ کا توقف کر کے اس لئے راستہ دینا ہے کے شاید وو ہم سے زیادہ جلدی میں ہے یا ذہنی طور کسی شدید کھنچاؤ کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے. اسی طرح کی کوئی بھی مثال لے لیجیے.

اس سوچ پر بہت شرمندہ ہوتا ہوں کے کیا مشرق اب اس قدر بانجھ ہو چکا ہے  کے اپنے نوجوانوں کو صحیح  سمت یا اپنی بیٹیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفّظ نہیں دے سکتا ہم نے تو بڑوں سے سنا تھا کہ "آنے والے دور کے انساں ہم سے جینا سیکھیں گے" کیا ترقی صرف مادّی ہوتی ہے؟ دجال کٹ بال اور بے آستین کی قمیض ہی آپ کو ترقی یافتہ ثابت کرے گی؟ 

 ہم معاشرتی طور پر بھی سنی سنائی کے عادی ہوچکے ہیں. اپنی تاریخ بھی اگر وکی پیڈیا پر ملے گی تو ہم یقین کریں گے کچھ عرصہ پہلے جب وکی لیکس نے کچھ انکشافات کئے تو سب نے صفائیاں دینا شروع  کر دیں . ذہن میں اٹھنے والی خرافات کو صفحے پر لانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر تقلید ہی کرنی ہے تو ہمارے پاس کوئی ایسا نہیں جو مشعل راہ ہو؟ یا ہم فکری طور پر بلکل لولے لنگڑے ہیں کے ہمیں ہر انداز، ہر شعبے، ہر تشریح یہاں تک کے معاشرت بھی خیرات یا ادھار میں لینی پڑے گی. کیا ہم اچھے دوست، اچھے پڑوسی اور اچھے ساتھی  بن ہی نہیں سکتے؟

لغوی یا اصطلاحی غلطیوں کے لیے معذرت، اپنی اصلاح کے لیے ہمیشہ کھلا 

عبدل باسط یوسف